
السلام علیکم ۔۔
محترم المقام جناب قیصرانی صاحب۔۔
محترم! میرے شب و روز بہت زیادہ بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔۔
مثبت اور منفی کی جنگ اور کشمکش تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔۔ منفی حملہ آور ہوتا ہے یا پچھلے دو تین دنوں میں ہوا لیکن وہ رکا نہیں۔۔ مثبت بہت جلد اس کو کور کر لیتا ہے۔۔۔
مثبت قیام کرتا ہے اور زیادہ دیر قیام کرتا ہے منفی نکل جاتا ہے۔۔ منفی کا دورانیہ بہت کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔
جیسے جیسے آپ نے فرمایا تھا ویسے ویسے مثبت اور منفی کی کشمکش ختم ہوتی جا رہی ہے۔۔۔
باوجود اس کے آپ کی میڈیسن کٹ میرے پاس ہمہ وقت موجود ہے لیکن مجھے اس کے استعمال کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔ مَیں ایک ماہ کے علاج کے بعد میڈیسن اور ٹینشن فری زندگی گزارے کے قابل ہو چکا ہوں – الحمد للہ۔
محترم جناب قیصرانی صاحب! اسی وجہ سے میں آپ کو فیڈ بیک نہیں دے رہا ہوں۔۔ مجھے بہت کم ضرورت محسوس ہو رہی ہے اب آپ کو کچھ اپ ڈیٹ کرنے کی۔۔
جنابِ محترم
مجھے اچھی طرح سے وہ وقت یاد ہے جس دن میں آپ کے پاس حاضر ہوا اور میری صورت حال کس قدر خطرناک تھی۔
یہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔۔ میرے دن اور رات اور ان کے درمیان گزرنے والے لمحات جب میں سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔
میرا ہر پل، ہر لمحہ، ہر دن ہر رات جس شدید خوف (Fear)، اضطراب (Anxiousness)، تشویش، انجانے خدشات، وہم (Phobia)، خطرات، بے چینی، گھبراہٹ، بے جا تشویش، بے جا ڈر اور خوف کے جس سائے میں گزرا ہے اس کنڈیشن کو میرا اللہ، میں یا اب پھر میرا معالج جانتا ہے۔
میری پہلی صورتحال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔۔ میں اتنا رنجیدہ اور غمزدہ ہوچکا تھا کے میری آواز تک رندھی ہوئی تھی۔ ہر روز کوئی فوبیا (Phobia)، ایک نیا ڈر خوف، ایک نیا وہم میرا انتظار کر رہا ہوتا۔۔
دن رات محنت کوشش کر کے مَیں اس فوبیا کا مقابلہ کرتا تو اگلے دن ایک نیا فوبیا میرے انتظار میں ہوتا۔ ..
پھر مجھے اس سے لڑنے کے لئے اپنے دل اور دماغ میں منفی اور مثبت کی جنگ لڑنا پڑتی۔۔۔ میرا ہر لمحہ اس جنگ میں گزر جاتا۔ اکثر منفی حاوی ہوتا مگر کبھی مثبت بھی حاوی ہو پاتا۔۔
چند لمحات خوشی کے گزرتے تو اس سے اگلے لمحات بے حد غمی کے گزرتے۔۔
اس جنگ میں کھبی مثبت دلائل جیتتے تھے تو کبھی منفی دلائل کی جیت ہوتی۔۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے آپ نے میری اس مثبت اور منفی کی پل پل کی جنگ اور کشمکش کو ہی اصل بیماری کا نام دیا۔
اور مجھے واقعتاً آج محسوس ہو رہا ہے کہ میں اپنے منفی فوبیاز، بے چینی، گھبراہٹ، بے جا تشویش، انجانے خدشات اور انتہا درجے کا خوف اور اس سے پیدا ہونے والی کنڈیشن سے لڑنے کے لئے مختلف کتابوں کا سہارا ڈھونڈتا۔ مختلف مثبت دلائل اکٹھے کرتا تاکہ منفی کو زیر کر کے اگلے پل کو سکون سے گزاروں۔۔ میری یہی کشمکش تھی جس نے میرے دن رات اور لمحات کو شدید عذاب کی کیفیت سے دوچار کر رکھا تھا۔۔
میں اپنی اس مثبت اور منفی کی جنگ میں اس قدر لڑا ہوں کہ ایک مقام پر ذہن تھک کر فرار کا مشورہ دیتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دفعہ اس جنگ میرے ذہنی اعصاب کو اس قدر شل کر دیا کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اپنے علاقہ سے کہیں دور، کسی اور شہر میں چلا جاؤں اور وہاں کی رنگین زندگی میں کھو جاؤں۔۔ شاید اس طرح ہی سے مجھے مثبت اور منفی کی اس شدید جنگ سے چھٹکارا مل جائے۔۔ میں مکمل پروگرام میں تھا اور میں نے آپ سے ذکر بھی کیا تھا، آپ کو اپڈیٹ کر دیا تھا کہ میں جانے لگا ہوں۔۔ لیکن آپ نے میری سائیکوتھراپی کے دوران مجھے کوئی ایسی میڈیسن دی کہ اس میڈیسن نے مجھے ایک اور ایسے فوبیا میں مبتلا کردیا کہ مجھے سفر سے ڈر لگنے لگا۔
لیکن کچھ عرصہ بعد میری اس کیفیت سے جان چھوٹ گئی اور میری حالت بہت زیادہ بہتر ہوگئی۔۔ تب مجھے آپ سے معلوم ہوا کہ میری ایسی کیفیت پیدا کی گئی تھی میرے معالج کی طرف سے۔۔ کیونکہ میرا معالج بہتر جانتا تھا میری اس وقت کی ذہنی صورتحال اور اس وقت کی مثبت اور منفی کی شدید ترین جنگ کو۔۔۔ میرے راہِ فرار کو۔۔
تو میری اس راہِ فرار کو روکا گیا۔ پر آج مجھے واقعی محسوس ہو رہا ہے کے آپ کا فیصلہ درست تھا کیونکہ وقتی طور پر میری اس کیفیت اور بیماری نے دب جانا تھا اور وہ صرف عارضی حل تھا۔۔
لہذا مجھے اپنے سابقہ ماحول میں رکھا گیا اور اسی ماحول میں اس کیفیت کو شکست دینے کے قابل بنایا گیا تاکہ اگر میں کوئی سفر کروں تو وہ واقعی سکون اور مزے کے لیے ہو نہ کہ راہِ فرار کے لیے۔۔
اور ایسا ہی ہوا۔
اِس موقع پر مریض کو ٹیوبرکولینم (Tuberculinum 1M) ایک ہزار طاقت میں دی گئی.
اسی طرح مجھے یاد ہے کہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ابھی میں جس ذہنی صورتحال اور جن الجھنوں میں پھنسا ہوا ہوں تو ان دنوں کا میرا مطالعہ، لیکچر سننا، نیٹ پر سرچ کرنا اور اپنے آپ کو مثبت رکھنا بھی ایک بیماری ہے۔۔
جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ میں کتابوں کا مطالعہ، مطالعہ کے طور پر کروں نہ کہ اپنے منفی اور مثبت کے چکروں میں کروں۔
اور ایک ماہ کے علاج کے بعد اب واقعی ایسی ہی صورتحال ہے۔ مَیں پڑھتا ہوں تو صرف پڑھنے کے لئے۔ ویسا مطالعہ یا نیٹ پر سرچ بہت کم ہو گیا اور اب کچھ دیکھتا بھی ہوں تو مزاحیہ ویڈیو وغیرہ زیادہ ۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر گزار ہوں اور اپنے معالج کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی بہت توجہ اور مسلسل آن لائن ٹریٹمنٹ اور گائیڈنس کی وجہ سے میں واپس اپنی اصل زندگی کی طرف آنے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔۔ اپنے کاروبار کو مکمل اور بہتر انداز سے چلانا شروع کر دیا ہے۔ گھریلو معاملات بھی بہتر انداز سے ڈیل کرنے لگ گیا ہوں۔ اور حالات بہتر سے بہترین کی طرف جا رہے ہیں۔۔
ورنہ تو میں ایف اے کی اس انگریزی نظم والی حالت میں تھا کہ ہر بیماری اور مسئلہ اپنے اندر پاتا تھا۔
A Man Who Was A Hospital.
میں پچھلے بیس سے پچیس سال مختلف قسم فوبیا کا شکار رہا ہوں لیکن یہ خوف اور ڈر تو جان لیوا ہو گیا تھا کہ مَیں جیسے ابھی ابھی یا کسی بھی لمحے مرنے لگا ہوں، سانس بند ہونے لگا ہے اور دل کی دھڑکن رک جائے گی۔ ہارٹ اٹیک کی کیفیت کا سوچنا اور پھر یہ سوچنا کہ میرے سارے میڈیکل ٹیسٹ تو بالکل ٹھیک ہیں۔ بلڈ پریشر بالکل پرفیکٹ ہونے کی وجہ سے مجھے دل کا دورہ (Heart Attack) تو نہیں ہو سکتا۔ پرویز کی کتاب “جہانِ فردا” میں وہ چند سطور تو میں بار بار پڑھتا تھا کہ جس میں انہوں نے مثالیں دے کر بتایا ہوا ہے کہ کوئی معاملہ اچانک نہیں ہوتا بلکہ قانونِ کے مطابق ہوتا ہے۔ اِس کے لئے میں قاسم علی شاہ کے لیکچرز سے اپنے آپ کو کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ آپ نے بالکل صحیح کہا تھا کہ علاج کے بعد اِن سہاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، ماحول بدلتا گیا اور شعور کی سطح بدلتی گئی۔۔
میرے فوبیاز (Phobias) اور اینگزائٹی ڈس آرڈر (Anxiety Disorder) بدلتے گئے۔۔ ہر پانچ یا چھ ماہ بعد مجھے ایک نئی اینگزائٹی فیس کرنا پڑتی۔۔
کوئی بھی افسوس ناک ڈیتھ (Deat) کی خبر سنی اور ایک نیا فوبیا اور انزائٹی میرے انتظار میں ہوتی۔۔۔
ہارٹ اٹیک (Heart Attack) پاکستان کے کسی کنارے میں ہونا اور اُس کی خبر سنتے پڑھتے فوبیا اور اینگزائٹی مجھ پر مسلط ہو جانی۔۔۔
غرضیکہ اپنی ہوش کے 20 سے 25 سال میں نے سینکڑوں اقسام کے مختلف فوبیاز اور وہموں کا مقابلہ کیا ہے۔۔
خصوصاً پچھلے چھ ماہ میں تو میں نے انزائٹی ڈس آرڈر اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے شدید پینک اٹیک (Panic Attack) کم و بیش تین بار فیس کیے ہیں۔۔۔
ہر اٹیک کے بعد اس وقفے سے لے کر اگلے اٹیک تک کا دورانیہ ہر پل، ہر لمحہ شدید اضطراب، خوف، بے چینی، گھبراہٹ، بے جا تشویش سے بھرا رہا۔۔
مجھے یاد ہے تین گھنٹے کی پہلی لمبی ملاقات کے وقت آپ نے مجھے کچھ ہدایات دی تھیں۔ میں نے الحمد للہ ان ہدایات پر عمل کیا۔ ان میں سب سے اہم جو ہدایت میں نے اپنے پلے باندھی آج اسی کا نتیجہ ہے کہ میں بہتر سے بہترین کی طرف جا رہا ہوں۔۔۔
اور اب میرا یہ ماننا ہے کہ اگر ہر مریض اس ہدایت پر عمل کرے تو وہ بہت جلد اپنے مرض سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔۔
اور وہ ہدایت آپ کی کچھ اس طرح سے تھی کہ میں اپنے ذہن میں پیدا ہونے والی ہر سوچ، ہر منفی تھاٹ، ہر کشمکش کو ایگزیکٹ لفظوں میں اپنے معالج کے پاس پہنچاؤں۔۔
یہ کہ کس وقت میرے ذہن میں کیا سوچ اور کس خیال نے مجھے اضطراب اور خوف کا شکار کیا ہوا ہے۔ مجھے ٹو دی پوائنٹ اور ایگزیکٹ خیال اور سوچ اپنے معالج کو بتانی ہے جس سوچ اور خیال کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی کیفیت عذاب میں آ جاتی ہے۔۔
پھر ہی معالج کو ایگزیکٹ صورتحال کا علم ہوتا ہے اور وہ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے میڈیسن ترتیب دیتا ہے۔۔۔
میں نے محترم قیصرانی صاحب! آپ کی اس ہدایت کو بھرپور طریقے سے آزمایا اور اس پر بھرپور عمل کیا۔۔۔
فائنلی الحمد للہ میں نے اس کا رزلٹ لے لیا اور اللہ تعالی کا بے پناہ فضل ہے کہ میں واپس اپنی اصلی اور اچھی زندگی کی طرف لوٹ آیا اور بہتر سے بہتر کی طرف جا رہا ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو کم سے کم فیڈبیک بھیج رہا ہوں۔۔
میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
اللہ تعالی آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔۔
اور آپ میری طرح دوسرے مریضوں کے لئے بھی شفا کا وسیلہ بنتے رہیں۔۔۔
بہت شکریہ
میں انشاء اللہ تعالی گاہے بگاہے آپ کو اپنی کنڈیشن سے اپڈیٹ کرتا رہوں گا۔۔
اور اگر کبھی ضرورت ہوئی تو آپ سے میڈیسن کی آگاہی بھی لیتا رہوں گا۔
شکریہ۔
——————
کیس کا تجزیہ – حسین قیصرانی
مریض کے مسائل کی تفصیل بہت طویل تھی۔ اِس میں جسمانی نوعیت کی تکلیفیں اتنی شدید نہ تھیں جتنا کہ نفسیاتی اور جذباتی۔ کم و بیش تین گھنٹے کی نشست ہوئی تو مسئلہ یہ سمجھ آیا کہ اُن کو دراصل موت کا ڈر ہر وقت سوار ہے۔ خاص طور پر جب موت، ہارٹ اٹیک یا دل کی کسی تکلیف کے متعلق وہ پڑھتا یا سنتا ہے تو اُس کا دل، دماغ اور جسم کام چھوڑ دیتا ہے۔ اُسے ایسے لگتا ہے کہ وہ مرنے والا ہے۔ وہ ان موضوعات پر نیٹ پر بہت پڑھ چکا ہے اور مزید پڑھتا رہتا ہے۔ اپنے تئیں ایسے کام اور منصوبے بنانے میں دن رات لگا رہتا ہے کہ جس سے دل کی تکالیف اور جسمانی کمزوریوں سے بچا جا سکے۔
اِس سے قبل اُس کو بواسیر بھی ہو چکی اور معدہ بھی بہت عرصہ خراب رہا جس کا لمبا علاج چلتا رہا۔ اُسے نیند سے بھی ڈر لگتا ہے اور اس وجہ سے وہ دیر تک جاگتا رہتا ہے اور صبح بہت سویرے اُٹھ کر بھائیوں کے ساتھ گراؤنڈ میں جا کر ایکسرسائز کرتا ہے، کرکٹ کھیلتا ہے تاکہ اُس کا دل مضبوط رہے۔
دن رات دل و دماغ میں جنگ رہتی ہے کہ جب سارے میڈیکل ٹیسٹ کلئیر ہیں اور وہ جسمانی طور پر مکمل فٹ ہیں تو اچانک موت کیسے آ سکتی ہے۔ پھر کوئی خبر سنتا یا پڑھتا ہے تو سارے دلائل اُلٹ ہو جاتے ہیں۔ مستقل ذہنی کشمکش ہر لمحے ذہن میں چلتی رہتی ہے۔ ایسا لٹریچر ڈھونڈتے اور پڑھتے بلکہ اب تو یاد کرتے رہتے ہیں کہ جس سے مثبت سوچیں پیدا ہوں۔ اِس متواتر کوشش اور عمل سے ذہنی ٹینشن اور کشمکش میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
کئی بار پینک اٹیک ہو چکے ہیں۔ بالکل ایسے کہ جیسے جسم جواب دے چکا ہو اور جان جسم سے نکلی جا رہی ہو۔ اس وجہ سے اُن کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ہر وقت اُن کے ساتھ ہو — گھر میں بھی اور باہر بھی۔
کبھی داڑھ میں درد ہو تو وہ اُس کو بھی موت کا اشارہ سمجھتے ہیں کیوںکہ کہیں ایسا کچھ پڑھ لیا تھا۔ جسم کے بائیں حصے میں درد یا کمزوری تو سیدھی موت کی علامت تھی کیونکہ سانس رکنے، دل بند ہونے اور جان نکلنے کی کیفیت واضح ہو جاتی۔ پاؤں میں کمزوری کا سُن رکھا تھا کہ جان یا روح پہلے پاؤں یا ٹانگوں سے نکلتی ہے سو وہ بھی موت کا پیغام تھا۔ یہ کہانی بہت لمبی ہے۔ اگر مکمل تفصیل ملاحظہ فرمانا چاہیں تو یہاں کلک کریں۔
—————————–
ہومیوپیتھک سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے – حسین قیصرانی
کیس کا ہر پہلو سے جائزہ لینے پر مریض کا کیس مندرجہ ذیل چار ہومیوپیتھک دوائیوں کے گرد گھومتا نظر آیا۔
1۔ اناکارڈیم
2۔ اکونائٹ
3۔ لیکیسس
4۔ کاربوویج
میری ترجیح پہلی دو ہومیوپیتھی دوائیاں تھیں –ایکونائیٹ اور اناکارڈیم۔ ہارٹ اٹیک اور موت کے ڈر خوف اور فوبیا کو پہلے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور ایکونائٹ 1000 کی طاقت میں دی۔ مریض کا خوف کچھ کم ہوا لیکن ذہنی کشمکش شدت اختیار کر گئی اور مریض کا دل کیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر بھاگ جائے۔ اصل میں فرار اور تبدیلی کی خواہش بے حد بڑھ گئی۔ وہ کسی لمبے سفر پر جانے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ فیملی ہسٹری، رونے کا مزاج، چڑ چڑا پن، کھانے پینے کے معاملات، ٹانگوں میں کمزوری، بے چینی اور مریض کی ہسٹری کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ٹیوبرکولینم 1000 کی ایک خوراک دی گئی۔ مریض کے سارے سفری منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ڈر خوف کچھ مزید کم ہو گیا تاہم ذہنی کشمکش برداشت سے باہر ہوتی گئی۔ کچھ جسمانی تکالیف واضح ہو گئیں جو اناکارڈیم 1000 کا تقاضا کر رہی تھیں۔
اناکارڈیم 1000 دینے سے اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوا اور بہتری کے واضح آثار سامنے آنے لگے۔ حسبِ ضرورت ہر چوتھے پانچویں دن ایک مزید خوراک دی جاتی رہی۔
اِس دوران ایک بار بہت سخت پینک اٹیک ہوا۔ مریض کو سخت کمزوری ہوئی، ٹھنڈے پسینے آئے اور سانس بند ہونے کی کیفیت پیدا ہوئی۔ کاربوویج 30 کی ایک خوراک دی گئی اور فوری بہتری اللہ کریم نے کر دی۔
مریض نے ایک بار کوئی آرٹیکل پڑھ لیا جس میں ہارٹ اٹیک کے متعلق تفصیل تھی۔ حالت اچانک خراب ہو گئی تو ایکونائٹ 30 لینے سے سنبھل گیا۔ ایک ماہ علاج جاری رہا اور اِس دوران حسبِ علامات ایکونائٹ 1000 دو بار، ٹیوبرکولینم 1000 ایک بار، اناکارڈیم 1000 دو بار دی گئی۔ وقتی صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے ایکونائٹ 30 چند دفعہ اور کاربوویج 30 ایک بار دی گئی۔ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے ایکونائٹ اور کاربوویج میں فرق مریض کو سمجھا دیا گیا تاہم ایسی نوبت نہیں آئی۔
اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ مریض جس طرح فضول کاموں میں اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کر رہا تھا، اُس سے نکل گیا ہے۔ اب کاروبار میں دن رات مصروف ہے اور پچھلے تقریباً دو ہفتے سے کوئی دوائی نہیں لے رہا۔
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔